سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
قسط نمبر 107
عنوان: حجۃ الوداع کے لیے روانگی
10ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ فرمایا۔ اس حج کو حجتہ الوداع کہا جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 24 ذی قعدہ 10ہجری جمعرات کے دن مدینہ منورہ سے حجتہ الوداع کے لیے روانہ ہوئے۔ روانگی دن کے وقت ہوئی۔ روانہ ہونے سے پہلے بالوں میں کنگھا کیا، سر مبارک میں تیل لگایا، مدینہ منورہ میں ظہر کی نماز ادا فرمائی اور عصر کی نماز ذوالحلیفہ میں ادا فرمائی۔ اس سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات بھی ساتھ تھیں۔ ان کی تعداد اس وقت نو تھی۔ انہوں نے اونٹوں پر ہودجوں میں سفر کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی قصوی پر سوار تھے۔ یہ اونٹنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اٹھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت احرام میں تھے۔ قصوی پر اس وقت ایک پرانا کجاوہ تھا جو چار درہم قیمت کا رہا ہوگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر چادر بھی معمولی سی کی تھی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھ رہے تھے۔ ترجمہ اے اللہ! اس حج کو مقبول بنادے اور ایسا بنادے جس میں نہ تو ریاکاری اور دھوکا ہو اور نہ دکھاوا اور ظاہرداری ہو۔ سفر کے دوران حضرت جبرئیل علیہ السلام حاضر ہوئے۔ انہوں نے عرض کیا آپ اپنے صحابہ کو حکم دیں کہ تلبیہ میں اپنی آواز بلند کریں۔ یہ حج کا شعار ہے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ایسا کرنے کا حکم فرمایا۔ انہوں نے بلند آواز میں تلبیہ شروع کردیا۔ راستے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو طوی کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ رات وہیں قیام فرمایا۔ صبح کی نماز پڑھ کر وہاں سے روانہ ہوئے یہاں تک کہ مکہ کے سامنے پہنچ گئے اور وہیں قیام فرمایا۔ پھر دن میں چاشت کے وقت مکہ معظمہ میں داخل ہوئے، باب عبد مناف سے خانہ کعبہ میں داخل ہوئے۔ یہ دروازہ باب سلام کے نام سے مشہور ہے۔ بیت اللہ پر نظر پڑتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دعا فرمائی ترجمۃ اے اللہ! تو خود سلامتی والا ہے اور تیری ہی طرف سے سلامتی آتی ہے۔ پس اے ہمارے پروردگار تو ہمیں سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ اور اس گھر کی عزت اور دبدبہ میں اضافہ ہی اضافہ فرما۔ پھر بیت اللہ کے گرد طواف کیا،سات چکر لگائے، طواف کی ابتدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے کی۔ پہلے اسکے پاس گئے اور اسکو چھوا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسوں آگئے، طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل فرمایا یعنی سینہ تان کر تیز رفتار سے چکر لگائے، باقی چار چکروں میں معمولی رفتار سے لگائے، طواف سے فارغ ہونے کے بعد حجر اسود کو بوسہ دیا، اپنے دونوں ہاتھ اس پر رکھے اور انکو چہرہء مبارک پر پھیرا۔ طواف سے فارغ ہونے کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز پڑھی پھر آب زم زم نوش فرما۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی کی طرف چلے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھ رہے تھے۔ ترجمۃ بے شک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں (سورۃ البقرہ)۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔ یہ دو پہاڑیاں ہیں ان کے درمیاں چکر لگانے کو سعی کرنا کہتے ہیں۔ پہلے تین پھیروں میں آپ تیز تیز اور باقی چار میں عام رفتار سے چلے، جب صفا پر چڑھتے اور کعبہ کی طرف منہ کرلیتے تو اس وقت اللہ کی توحید یوں بیان فرماتے ترجمۃ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تن تنہا ہے۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کردیا، اپنے بندوں کی مدد کی اور اسنے تن تنہا متحدہ لشکروں کو شکست دی۔ مروہ پر پہنچ کر بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو احرام کھولنے کا حکم فرمایا جن کےساتھ قربانی کے جانور نہیں تھے۔ جن کے ساتھ قربانی کے جانور تھے۔ انھیں حکم فرمایا کہ وہ احرام کو برقرار رکھیں۔ 8 ذی الحجہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ کیلئے روانہ ہوئے۔ منیٰ کی طرف روانگی سے پہلے ان تمام لوگوں نے احرام باندھ لئے جو پہلے احرام کھول چکے تھے۔ منیٰ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر، عصر، مغرب اور عشا کی نمازیں ادا فرمائیں، رات وہیں گزاری۔ وہ جمعہ کی رات تھی۔ صبح کی نماز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں پڑھی۔ سورج طلوع ہونے کے بعد وہاں سے عرفات کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ میرے لئے اونٹ کے بالوں کا ایک قبہ بنا دیا جائے۔ میدان عرفات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس قبے میں ٹہرے یہاں تک کہ زوال کا وقت ہو گیا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی قصویٰ کو لانے کا حکم فرمایا۔ قصویٰ پر سوار ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادی کے اندر پہنچے اور اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے ہی مسلمانوں کے سامنے خطبہ دیا۔ اس خطبہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو! میری بات سنو۔ دیکھو میں جانتا نہیں کہ اس سال کے بعد اس جگہ میں تم سے کبھی ملوں گا یا نہیں۔ لوگو!سن لو، تمہارے خون (یعنی تمہاری جانیں) اور تمہارے اموال ایک دوسرے پر اپنے رب سے ملنے تک (یعنی زندگی بھر) اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح تمہارے لئے یہ دن اور یہ مہینہ قابل احترام ہے۔ دیکھو تم (مرنے کے بعد) عنقریب اپنے رب سے ملوگے، وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق سوال کرےگا اور میں (ہر عمل کے متعلق) تمام احکام تمہیں پہنچا چکا ہوں، پس جس کے پاس (کسی کی) امانت ہو، اسے چاہئے کہ وہ اس امانت کو مانگنے پر اسی شخص کے حوالے کردے جس نے امانت دار سمجھ کر امانت رکھوائی تھی۔ دیکھو ہرقسم کا سود (جو کسی کا کسی کے ذمے تھا) ساقط کردیا گیا، البتہ تمہارا اصل مال تمہارے لئے حلال ہے۔ نہ تم زیادتی کروگے اور نہ تمہارے ساتھ زیادتی کی جائے گی۔ اللہ تعالی نے فیصلہ کردیا ہے کہ اب کوئی سود جائز نہیں اور عباس بن عبد المطلب کا سارا سود ساقط کر دیا گیا۔ اسلام لانے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں جو بھی قتل کا مقدمہ تھا، وہ بھی ختم کردیا گیا (اب اسکا انتقام نہیں لیا جائےگا) اور سب سے پہلے جو قتل کا بدلہ میں ختم کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا قتل ہے اور ابن ربیعہ نے بنو لیث میں دودھ پیا تھا، ہذیل نے اسے قتل کردیا تھا۔ پس یہ پہلا قتل ہے جس سے میں معافی کی ابتداء کر رہا ہوں۔ لوگو! غور سے سنو، شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے اب اس سر زمین میں کبھی اسکی عبادت کی جائےگی، لیکن اگر اسکی اطاعت کروگے تو وہ تمہارے ان گناہوں سے جنہیں تم معمولی سمجھتے ہو، راضی ہو جائے گا۔ اسلئے تم لوگ دین کے معاملے میں شیطان سے بچتے اور ڈرتے رہو۔ لوگو! غور سے سنو! تمہاری عورتوں پر تمہارا حق ہے اور تم پر ان عورتوں کا حق ہے۔ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور بھلائی کرتے رہو کیوکہ وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں۔ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے۔ لوگو! میری بات سمجھنے کی کوشش کرو، میں نے تو (ہر حکم) پہنچا دیا اور تمہارے اندر وہ چیز چھوڑی ہے کہ اگر اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا، تو کبھی گمراہ نہ ہوگے اور وہ کھلی ہوئی چیز ہے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ۔ لوگو! میری بات سن کر غور کرو، خوب سمجھ لو کہ ہر مسلمان دوسرے دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، لہٰذا کسی بھی آدمی کے لیے اپنے بھائی کی کوئی چیز (بلا اجازت) حلال نہیں، ہاں مگر اس وقت جب وہ دل کی خوشی سے کوئی چیز خود دے دے۔ پس تم لوگ اپنے آپ پر کسی بھی حالت میں ظلم مت کرنا۔ لوگو! بتاؤ میں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا؟ لوگوں نے جواب میں کہا یقیناً یقیناً۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آسمان کی طرف رخ کیا اور شہادت کی انگلی اٹھاکر فرمایا اَللّهُمَّ اشْهَدْ، اَللّهُمَّ اشْهَدْ، اَللّهُمَّ اشْهَدْ. (اے اللہ آپ گواہ رہیے گا، اے اللہ آپ گواہ رہیے گا، اے اللہ آپ گواہ رہیے گا)۔
خطبے سے فارغ ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کا حکم دیا۔ اذان کے بعد ظہر کی تکبیر کہی گئی اور نماز ادا کی گئی۔ پھر عصر کی نماز کے لیے تکبیر کہی گئی اور نماز ادا کی گئی، یعنی دونوں نمازیں ایک ساتھ ادا کی گئیں۔ دونوں نمازوں کے لیے اذان ایک کہی گئی اور تکبیریں الگ الگ ہوئیں۔ عرفات میں ایک جماعت خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی انھوں نے پوچھا حج کس طرح کیا جاتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا حج دراصل وقوفِ عرفات کا نام ہے، یعنی عرفات میں ٹھہرنا حج کرنا ہے، عرفات کا پورا میدان وقوف کی جگہ ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مشعر الحرام یعنی مزدلفہ کے لیے روانہ ہوئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو اطمینان سے چلنے کا حکم فرماتے رہے۔ اس طرح مزدلفہ پہنچے۔ یہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ ادا فرمائیں۔ یہ دونوں نمازیں عشاء کے وقت پڑھی گئیں۔ عورتوں اور بچوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا کہ آدھی رات کے ایک گھنٹے بعد ہی مزدلفہ سے منی روانہ ہوجائیں تاکہ وہاں ہجوم ہونے سے پہلے شیطان کو کنکریاں مارسکیں۔ فجر کا وقت ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مزدلفہ میں منہ اندھیرے ہی نماز پڑھائی۔ پھر سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوئے۔ جمرہ عقبہ (بڑے شیطان) پر پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سات کنکریاں ماریں۔ شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے عمل کو رمی کہتے ہیں، یہ کنکریاں مزدلفہ سے چن لی جاتی ہیں، ہر کنکری مارتے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ اکبر فرماتے رہے، اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اونٹنی پر سوار تھے۔ حضرت بلال اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی کی لگام پکڑ رکھی تھی اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوپر کپڑے سے سایہ کیے ہوئے تھے۔ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو خطبہ دیا۔ اس میں ایک دوسرے کے مال اور عزت کو حرام قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو حرمت کا دن قرار دیا اور فرمایا اے لوگو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزت اور ناموس تمہارے درمیان ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ دن تمہارے لیے حرمت کا دن ہے جس طرح اس شہر کی حرمت ہے اور جس طرح اس مہینے کی حرمت ہے۔ یہ الفاظ کئی بار فرمائے، آخر میں دریافت فرمایا اے لوگو! کیا میں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا۔ لوگوں نے اقرار کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اب تم میں سے جو موجود ہے، وہ غائب تک یہ تبلیغ پہنچادے، میرے بعد تم کفر کی تاریکیوں میں لوٹ نہ جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے یہ بھی فرمایا کہ وہ مجھ سے حج کے مناسک (ارکان) سیکھ لو کیونکہ ممکن ہے اس سال کے بعد مجھے حج کا موقع نہ ملے (اور ایسا ہی ہوا کیونکہ اس حج کے صرف تین ماہ بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوگئی تھی)۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم منی میں قربانی کی جگہ تشریف لائےاور 63 اونٹ قربان فرمائے۔ یہ سب جانور آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ ہی سے لائے تھے اور اپنے دستِ مبارک سے ذبح فرمائے۔ گویا اپنی عمر کے ہر سال کے بدلے ایک جانور قربان فرمایا۔ قربانی کے گوشت میں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے کچھ گوشت پکایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تناول فرمایا۔ باقی اونٹوں کو ذبح کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا۔ کل سو اونٹ تھے، اس طرح 37 اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ذبح فرمائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان جانوروں کا گوشت اور دوسری چیزیں لوگوں میں تقسیم کرنے کا حکم فرمایا۔ منی کا تمام مقام قربانی کرنے کی جگہ ہے، اس کے کسی بھی حصے میں جانور قربان کیا جاسکتا ہے۔ قربانی سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سر منڈوایا۔ سر مبارک کے بال صحابہ کرام میں تقسیم کیے گئے۔ اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی ترجمہ اے اللہ! سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرما۔ سر منڈوانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو لگائی۔ اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ جانے کے لیے سواری پر تشریف فرما ہوئے۔ مکہ پہنچ کر ظہر سے پہلے طواف کیا۔ یہ طوافِ افاضہ تھا جو حج میں فرض ہے۔ اس کے بغیر حج نہیں ہوتا۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے زم زم کے کنوئیں سے زم زم نوش فرمایا۔ کچھ پانی اپنے سر مبارک پر بھی چھڑکا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم منی واپس تشریف لے گئے۔ وہیں ظہر کی نماز ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم منی میں تین دن ٹھہرے۔ تین دن تک رمی جمرات کی، یعنی شیطانوں کو کنکریاں ماریں۔ ہر شیطان کو سات سات کنکریاں ماریں۔ منی کے قیام کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ تشریف لائے اور صحابہ کرام کو حکم فرمایا لوگو! اپنے وطن لوٹنے سے پہلے بیت اللہ کا طواف کرلو۔ اسے طوافِ وداع کہتے ہیں، یعنی رخصت ہوتے وقت کا طواف اور یہ ہر حاجی پر واجب ہے۔