سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
قسط نمبر 109
عنوان: آخری ایام
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ان سات مشکوں کا پانی ڈالنا شروع کیا گیا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا بس کافی ہے۔ زندگی کے ان آخری ایام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے اے عائشہ! مجھے خیبر میں جو زہر دیا گیا تھا، اس کی تکلیف میں اب محسوس کرتا ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ آخری دنوں میں اس زہر کا اثر دوبار ظاہر ہوگیا تھا اور اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت درجہ شہادت کو پہنچتی ہے۔ پانی اپنے اوپر ڈلوانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ مبارک سے باہر نکلے۔ اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد کے لیے دعا مانگی۔ بہت دیر تک ان کے لیے دعا فرماتے رہے،پھر ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کے سامنے ایک طرف دنیا رکھی اور دوسری طرف وہ سب کچھ رکھا جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ پھر اس بندے کو اختیار دیا کہ وہ ان دونوں چیزوں میں سے کوئی ایک چن لے۔ اس بندے نے اپنے لیے وہ پسند کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان باتوں کا مطلب فوراً سمجھ گئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے مراد اپنی ذات ہے، چنانچہ رونے لگے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم اپنی جانیں اور اپنی اولادیں آپ پر قربان کر دیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روتے ہوئے دیکھ کر فرمایا ابوبکر خود کو سنبھالو، پھر لوگوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا لوگو! ساتھ دینے کے اعتبار سے اور اپنی دولت خرچ کرنے کے اعتبار سے جس شخص کا مجھ پر سب سے زیادہ احسان ہے وہ ابوبکر ہیں۔ یہ حدیث صحیح ہے اس کو دس سے زیادہ صحابہ نے نقل کیا ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسجد سے ملے ہوئے تمام دروازے بند کر دیے جاییں٬ بس ابوبکر کا دروازہ رہنے دیا جائے، کیونکہ میں اس دروازہ میں نور دیکھتا ہوں، صحبت اور رفاقت کے اعتبار سے میں کسی کو ابوبکر سے افضل نہیں سمجھتا، ایک روایت میں ہے۔ ابوبکر میرے ساتھی ہیں اور میرے غمگسار ہیں، اس لئے مسجد میں کھلنے والی ہر کھڑکی بند کر دو، سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں یہ بھی ارشاد فرمایا میرے ساتھی ابوبکر کے بارے میں مجھے تکلیف نہ پہنچاؤ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد مبارک ہے۔ جب لوگوں نے مجھے جھوٹا کہا تھا تو ابوبکر نے مجھے سچا کہا تھا، جب لوگوں نے اپنا مال روک لیا تھا تو ابوبکر نے میرے لئے اپنے مال کو فیاضی سے خرچ کیا۔ جب لوگوں نے مجھے بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا تو ابوبکر نے میری غم خواری کی تھی۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول! یہ کیا بات ہے کہ آپ نے ابوبکر کا دروازہ تو کھلا رہنے دیا اور باقی لوگوں کے دروازے بند کروادیے۔ ان کی بات کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے عباس نہ میں نے اپنے حکم سے کھلوایے اور نہ بند کروائے۔ مطلب یہ تھا کہ ایسا کرنے ک حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ اپنے اوپر سات مشکوں کا پانی ڈلوانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے افاقہ محسوس فرمایا تو مہاجرین سے ارشاد فرمایا اے مہاجرین انصار کے ساتھ نیک سلوک کرنا، خیر کا سلوک کرنا، کیونکہ یہ لوگ میری پناہ گاہ تھے، ان کے پاس مجھے ٹھکانہ ملا، اس لئے ان کی بھلائیوں کے بدلے میں ان کے ساتھ بھلائی کرنا اور ان کی برایٔوں سے درگزر کرنا۔ اتنا فرمانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر آئے۔ اپنے مرض وفات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں۔ وہ نماز عشاء کی تھی، جب حضرت بلال نے اذان دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے لئے برتن میں پانی لاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر مسجد میں جانے کا ارادہ فرمایا مگر غشی طاری ہوگئی۔ کچھ دیر بعد افاقہ ہوا تو دریافت فرمایا کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ صحابہ کرام نے عرض کیا لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پانی لانے کا حکم دیا، وضو کیا، پھر مسجد میں جانے کا ارادہ فرمایا، لیکن پھر غشی طاری ہوگئی۔ اس کے بعد پھر افاقہ ہوا تو پوچھا کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ صحابہ کرام نے پھر عرض کیا نہیں، لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ اب پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، نماز کا ارادہ فرمایا، لیکن غشی طاری ہوگئی۔ افاقہ ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی پوچھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی بتایا گیا، تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم بھیجا کہ وہ مسلمانوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب یہ حکم ملا توانھوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا اے عمر تم نماز پڑھا دو۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ آخر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز پڑھائی۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نمازیں پڑھاتے رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک میں اس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سترہ نمازیں پڑھائیں۔ اس دوران صبح کی ایک نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی امامت میں دوسری رکعت میں شریک ہوئے اور اپنی پہلی رکعت بعد میں ادا فرمائی۔ اس نماز کے لیئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کا سہارا لے کر مسجد تک آئے تھے۔ ان دو میں سے ایک حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت نماز پڑھا رہے تھے، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریف لاتے دیکھا تو فوراً پیچھے ہٹنے لگے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امامت فرمایٔں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ سے فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ساتھیوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بائیں جانب بٹھادیا۔ اس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر نماز ادا کی، ان کے پیچھے باقی تمام صحابہ نے بھی کھڑے رہ کر نماز ادا کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پوری فرمائی۔ امام ترمذیؒ نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے تین مرتبہ نماز پڑھی۔ اس بارے میں یہ روایت بھی ہے کہ پہلی مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ امامت کرنے لگے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کی آواز سنی تو ارشاد فرمایا نہیں، نہیں، نہیں، ابوبکر ہی نماز پڑھائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹ آئے تھے اور حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی تھی۔ پھر آخری روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک پردے کے باہر سے نکال کر مسجد میں دیکھا۔ لوگ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز ادا کر رہے تھے، یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے، یہ دن پیر کا دن تھا، وہی دن جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ مسکرا کر صحابہ کرام کو دیکھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ گرادیا۔ اس وقت لوگوں نے محسوس کیا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت اب پہلے سے بہت بہتر ہے اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف میں کمی ہوگئی ہے، سو آپ کے آس پاس موجود صحابہ اپنے گھروں کو چلے گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی مدینہ منوره کے قریب “مسخ” نامی دیہات چلے گئے جہاں ان کی دوسری زوجہ محترمہ کا گھر تھا۔ یہ جگہ مدینہ منوره سے ایک یا ڈیڑھ میل کے فاصلے پر تھی۔ جانے سے پہلے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس روز صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رُخ انور پر بہت بشاشت تھی۔ چہرہ انور چمک رہا تھا، لہذا لوگوں نے خیال کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت سنبھل گئی ہے۔ لیکن دوپہر کے قریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بخار تیز ہوگیا۔ یہ خبر سنتے ہی تمام ازواج مطہرات پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت بار بار غشی طاری ہو رہی تھی، ہوش میں آتے تو فرماتے میں اپنے رفیق اعلیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہوں۔