0

سیرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قسط نمبر 22 حضرت سیدنا ابوبکر کی فتوحات

سیرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

قسط نمبر 22

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فتوحات

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر کا سر براہ بنا کر ملک شام کی جانب روانہ کیا تھا۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا یہ لشکر ابھی ملک شام نہ پہنچا تھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وصال فرما گئے اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت نے مشورہ دیا کہ وہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو شام کی مہم سے واپس بلا لیں مگر آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جو لشکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تیار کردہ ہے میں اس کو واپس نہیں بلا سکتا۔ چنانچہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کی پہلی فتح ملک شام کی ہوئی اور چالیس دن بعد حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بحیثیت فاتح مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔

حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ کی حفاظت کے لئے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ، حضرت طلحہ بن زبیر، حضرت زبیر بن العوام اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کو مقرر کیا۔ اس کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ نے تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ کسی بھی نازک صورتحال کے وقت تمام مسلمان مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہوں تا کہ متوقع خطرے کا ازالہ کیا جا سکے۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر ملک ایران روانہ کیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں ہی ایران کے شہنشاہ خسرو پرویز کو دعوت اسلام دی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب کو پھاڑ دیا تھا اور پھر کچھ عرصہ بعد اپنے بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں عراق کا علاقہ بھی ایرانیوں کے زیر اثر تھا۔ عراق کے ایک عیسائی قبیلے کے سردار مثنیٰ نے اپنے تمام قبیلے کے ہمراہ اسلام قبول کر لیا اور اس نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ وہ اسے ایران پر حملہ کرنے کی اجازت دیں۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مثنیٰ کو اجازت دے دی اور وہ اپنا لشکر لے کر ایران پر چڑھ گیا۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کی مدد کے لئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا اور یوں ان دونوں لشکروں نے مل کر کئی علاقوں کو اپنے تابعدار کر لیا۔ پھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عراق کے ایرانی نژاد گورنر ہرمز کو خط لکھا جس میں اسے دعوت اسلام دی گئی اور اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتا تو جزیہ ادا کرے اور اگر جزیہ بھی ادا نہیں کرے گا تو جنگ کے لئے تیار ہو جائے۔ ہرمز نے وہ خط شہنشاہ ایران اردشیر کو بھیج دیا اور خود حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مقابلے کے لئے نکل آیا۔

لشکر اسلام کی یہ جنگ دلجہ کے مقام پر ہوئی اور ایرانیوں کے ساتھ کئی عیسائی قبائل بھی شامل ہو گئے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کے ہمراہ نہایت جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور اپنے سے کئی گنا بڑے لشکر کو شکست فاش کیا۔ ایرانیوں نے اپنی شکست تسلیم کر لی اور ایک لاکھ نوے ہزار درہم ادا کر کے صلح کا معاہدہ کر لیا۔

ایران کی مہم کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ملک شام میں موجود رومیوں کی سرکوبی کے لئے بھیجا جو حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی مہم کے بعد بظاہر تو مطیع ہو گئے مگر پھر بھی سازشوں میں مصروف تھے۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک بہترین سپہ سالار کی طرح رومیوں کے خلاف مہم میں لشکر اسلام کو کئی حصوں میں تقسیم فرمایا اور ہر دستے کا ایک بہترین سپہ سالار تعینات کیا۔ اس دوران حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کے ہمراہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حکم پر بصرہ پر چڑھائی کر دی اور ان سے جزیہ ادا کرنے کی شرط پر صلح کر لی۔ اس دوران لشکر اسلام کا ایک اور دستہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں فلسطین کی طرف روانہ ہوا اور وہاں رومیوں سے اجنادین کے مقام پر مقابلہ ہوا۔ اس دوران حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی پہنچ گئے اور یوں گھمسان کی لڑائی کے بعد لشکر اسلام کو فتح ہوئی۔ دمشق میں لشکر اسلام حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں برسر پیکار تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کو لے کر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی مدد کو پہنچ گئے اور دمشق کا محاصرہ کر لیا۔ اس دوران حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وصال فرما گئے اور دمشق کی فتح حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوئی۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے مختصر دور خلافت میں بہت سے کارنامے انجام دیئے۔ مرتدین کا قلع قمع کرنا، منکرین زکوۃ سے زکوۃ کی وصولی نبوت کے جھوٹے دعویداروں کا خاتمہ اور ایران، عراق، ملک شام جیسے بڑے ملکوں سے جزیہ وصول کیا اور وہاں موجود کئی قبائل دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تمام غزوات میں حصہ لیا تھا اس لئے انہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین جنگی حکمت عملی کا اندازہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ جب آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی سربراہی میں لشکر اسلام کو مختلف مہمات پر بھیجا تو وہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم والی جنگی حکمت عملی بنائی اور یہی وجہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کے اس مختصر دور خلافت میں مسلمانوں کو بے شمار فتوحات نصیب ہوئیں۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جنگی حکمت عملی کا ایک اور بڑا ثبوت آپ رضی اللہ عنہ کا لشکر اسلام کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو لشکر اسلام کا سر براہ اعلیٰ مقرر فرمایا اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ براہ راست آپ رضی اللہ عنہ کے احکامات کے پابند تھے۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جنگی حکمت عملی کا ایک اور بہترین ثبوت یہ تھا کہ دوران جنگ فوج کو مسلسل کمک پہنچانے کا نظام ہوتا کہ لشکر اسلام کسی بھی موقع پر اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے پسپا نہ ہونے پائے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کو ہدایات کی تھیں کہ فتح کے بعد وہ لوگوں سے حسن سلوک سے پیش آئیں اور انہیں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کریں، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کریں، پھل دار درختوں کو تباہ نہ کریں، عبادت گاہوں کو ختم نہ کریں اور عبادت گاہوں میں بیٹھنے والوں کو تنگ نہ کریں، مذہبی رہنماؤں سے حسن اخلاق سے پیش آئیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی اسی بردباری کی وجہ سے بے شمار قبائل دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔

حربی اعتبار سے ایک اور اہم حکمت عملی جس پر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مربوط انداز میں عمل ہوتا رہا اور اسلامی فوج کے تمام لشکروں کا ایک دوسرے سے رابطہ رہتا تھا اور ہر لشکر براہ راست حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے احکامات کا تابع تھا۔ ہر لشکر کے سپہ سالار کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ کسی بھی مہم میں مشکل کے وقت دوسرے لشکر کو اپنی مدد کے لئے بلا سکتا تھا اور دوسرے لشکر پر بھی یہ واجب تھا کہ وہ اس ضرورت مند اسلامی لشکر کو فوراً پہنچے۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں طلیحہ اسدی جو کہ قبیلہ بن اسد کی ایک شاخ تھی نے مدینہ منورہ پر حملہ کر دیا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لشکر اسلام کی حوصلہ افزائی کی اور پھر رات کے آخری پہر میں اپنے لشکر کے ہمراہ طلیحہ اسدی کے لشکر پر شب خون مارا۔ گھمسان کا رن پڑا لیکن طلیحہ اسدی کا لشکر چونکہ نیند اور غنودگی کے زیر اثر تھا اس لئے اس کا جانی اور مالی نقصان بے تحاشا ہوا اور وہ مدینہ منورہ کا محاصرہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمانوں کو اس شب خون سے بے شمار مال غنیمت ہاتھ آیا۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں بے شمار جنگی معرکوں میں خود بھی حصہ لیا اور کئی دفاعی اور حفاظتی سرگرمیوں میں بھی بھر پور طریقے سے شامل رہے۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی حفاظتی دستے کی قیادت کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔

ذمیوں کے حقوق:

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ذمیوں اور محکوم اقوام کے ساتھ بالخصوص انسانی اور مذہبی رواداری کے عملی ثبوت فراہم کئے اور غیر مسلم اقوام کو معاشرے میں رواداری کے ساتھ ایک منفرد مقام دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جب مسلیمی فرقہ پر قابو پالیا تو اس کے بعد ان کا ایک وفد بات چیت کے لئے مدینہ منورہ آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور ان کی بات کو اطمینان سے سنا۔ ذمیوں اور محکوم اقوام سے متعلق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات موجود تھے آپ رضی اللہ عنہ نے ان پر عمل کرتے ہوئے ان کے حقوق بحال کئے۔ حیرہ کے عیسائیوں سے معاہدہ کرتے ہوئے حکم دیا کہ ان لوگوں کی خانقا ہیں اور گرجے محفوظ رہیں گے اور ان کے ایسے قلعوں کو بھی نہیں گرایا جائے گا جنہیں یہ بوقت ضرورت دشمن کے مقابلے میں استعمال کرتے ہیں اور ان کے مذہبی تہواروں پر جب وہ صلیب کا جلوس نکالنا چاہیں تو انہیں اس عمل سے نہیں روکا جائے گا۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اس رواداری اور حسن سلوک کی بدولت بے شمار غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے سپہ سالاروں کو ہر ممکن ذمیوں اور محکوم قوموں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا اور ان کو غیر مسلموں کی دل آزاری سے منع فرمایا۔ اگر کوئی محکوم قوم یا قبیلہ ایسا تھا جو جزیہ ادا نہیں کر سکتا تھا ان کا جزیہ معاف کر دیا بلکہ اگر ان میں کوئی محتاج بھی تھے تو ان کی کفالت بیت المال کے ذمہ لگائی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام کی تعلیمات کو صحیح معنوں میں اجاگر کیا اور غیر مسلموں پر واضح کیا کہ دین اسلام کی بنیاد رواداری اور بھائی چارہ پر ہے اور ہم ظلم کے صریح خلاف ہے۔

 

اس پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں