سیرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
قسط نمبر 5
ابتدائے حال
حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تعلق قریش کے ایک قبیلہ بنو تیم سے تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار ایک خوش اخلاق نیک سیرت اور ایمان دار تاجروں میں ہوتا تھا۔ قریش کے لوگ آپ رضی اللہ عنہ کا نام نہایت احترام سے لیتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ صاحب علم تھے اور یہی وجہ تھی کہ قریش کے سردار کئی اہل مواقع پر آپ رضی اللہ عنہ کو اپنا سفیر اور مشیر مقرر فرماتے تھے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قبیلہ خون بہا اور تاوان کے اُمور کے فیصلے کرتا تھا اور آپ رضی اللہ عنہ بھی ابتداء میں اسی منصب پر فائز تھے اور اپنے منصب کو نہایت خوش اسلوبی سے نبھا رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ بچپن سے ہی نہایت اصول پسند تھے اور اصولوں پر کسی بھی قسم کا سمجھوتا نہ کرتے تھے۔
حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دور جاہلیت میں کبھی بھی بتوں کے آگے سجدہ ریز نہ ہوئے بلکہ آپ رضی اللہ عنہ اس دور کی تمام جاہلانہ رسوم و رواج سے باغی تھے۔ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت میں فرمایا کہ میں نے کبھی بھی کسی بت کے آگے سجدہ نہیں کیا۔ جب میں سن بلوغ کو پہنچا تو میرے والد مجھے ایک کوٹھڑی میں لے گئے جہاں بت موجود تھے۔ انہوں نے مجھے اس کوٹھڑی میں بند کر دیا۔ جب مجھے بھوک لگی تو میں نے ایک بت سے کہا کہ میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دو تو اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر میں نے ایک بت سے کہا کہ میں برہنہ ہوں مجھے کپڑے پہناؤ تو اس نے بھی کوئی جواب نہ دیا۔ پھر میں نے ان بتوں کو پتھر مار کر توڑ دیا۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دور جاہلیت سے ہی اپنے اوپر شراب کو حرام قرار دے دیا تھا اور آپ رضی اللہ عنہ نے کبھی شراب کو ہاتھ نہ لگایا۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں میرا گزر ایک مدہوش آدمی کے پاس سے ہوا جو غلاظت میں اپنا ہاتھ ڈالتا اور پھر اسے اپنے منہ کے پاس لے جاتا۔ جب اس کو اس غلاظت کی بد بو محسوس ہوتی تو وہ ہاتھ منہ میں ڈالنے سے رُک جاتا۔ میں نے جب دیکھا تو اس وقت سے شراب کو خود پر حرام کر لیا۔
حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دور جاہلیت کی تمام معاشرتی برائیوں سے پاک رہے اور یہی وجہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ قریش کے تمام قبائل میں نہایت ہی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ دور جاہلیت سے ہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست تھے اور اکثر و بیشتر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ جس وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ ملک شام تجارت کی غرض سے گئے اور بحیرہ راہب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہوئی تو حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔
حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دور جاہلیت میں تجارت کرتے تھے اور جس وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر آپ رضی اللہ عنہ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا کل سرمایہ جو کہ چالیس ہزار درہم تھا سب کا سب راہ خدا میں خرچ کر دیا۔ جب لوگوں نے پوچھا کہ تم نے اپنے بال بچوں کے لئے کیا چھوڑا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے بال بچوں کے لئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کافی ہیں۔
روایات میں موجود ہے کہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ عربوں کی نفسیات سے بخوبی آگاہ تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کو عربوں کی نسب دانی میں بھی کمال حاصل تھا۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شرافت اور ایمانداری کے باعث سردارانِ قریش اپنا مال تجارت کی غرض سے آپ رضی اللہ عنہ کو دیتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ نے کے فیصلوں پراعتماد کا اظہار کرتے تھے۔