0

سیرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قسط نمبر 7 دین اسلام کی تبلیغ

سیرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

قسط نمبر 7

دین اسلام کی تبلیغ

حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے دین اسلام کو جو تقویت ملی وہ اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ چونکہ قریش مکہ میں بلند مقام کے حامل تھے اور ہر شخص آپ رضی اللہ عنہ کا عزت کرتا تھا اس لئے جب آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے حلقہ احباب میں دعوت اسلام دی تو بے شمار لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ جس وقت حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اس وقت  آپ رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک اڑتیس (38) سال تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد تبلیغ اسلام اور اشاعت اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی۔ آپ رضی اللہ عنہ کی تبلیغ سے بنی امیہ، بنی اسد، بنی زہرہ اور بنی تمیم کے کئی عمائدین دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔

ابن اسحاق کی روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب شروع میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا اور ان پانچوں صحابہ کا شمار اپنے قبائل کے نامور سرداروں میں ہوتا تھا اور بعد ازاں یہ تمام صحابہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہوئے جنہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دعوتِ اسلام دی تو سب سے پہلے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا، اس کے بعد حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ، حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ارقم رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔

حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے صحن میں ایک چھوٹی سی مسجد بنا رکھی تھی جہاں ابتدائے اسلام میں آپ رضی اللہ عنہ نماز ادا کرتے اور قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے۔ دوران تلاوت آپ رضی اللہ عنہ پر گریہ طاری ہو جاتا اور لوگوں کا ایک جم غفیر آپ رضی اللہ عنہ کی تلاوت سننے کے لئے اکٹھا ہو جاتا۔ یہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پر سوز تلاوت کا ہی اثر تھا کہ بے شمار لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔

حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بہت سے غلاموں کو بھاری معاوضہ دے کر آزاد کروایا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس مشکل وقت میں اپنے مسلمان بھائیوں کی مالی امداد بھی فرمائی۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ابتدائے اسلام میں سات ایسے غلام جنہیں اسلام قبول کرنے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا بھاری معاوضہ دے کر خریدا اور آزاد کر دیا۔ ان غلاموں میں حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ، حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ بھی شامل تھے۔

حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں اللہ عز وجل نے سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا:

جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں وہ مال خرچ کرنے میں کبھی تو پوشیدہ رہتے ہیں اور کبھی ان کا اظہار ہو جاتا ہے پس ایسے نیک بندوں کے لئے ان کے خدا کی طرف سے ان کے لئے بہت بڑا اجر اور ثواب ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: مجھے جس قدر نفع حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مال سے پہنچا ہے اتنا کسی اور کے مال سے نہیں پہنچا ہے۔

حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ کا یہ فرمان سنا تو آپ رضی اللہ عنہ رو دیئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری ذات میرا مال و متاع سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہی تو ہے۔

حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اللہ عزوجل کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بے شمار کارنامے سر انجام دیئے جو تاریخ اسلامی میں سنہرے حروف میں درج ہیں۔ اللہ عزوجل نے بھی آپ رضی اللہ عنہ پر بے شمار احسانات فرمائے اور آپ رضی اللہ عنہ کو یار غار جیسے بلند پایہ مرتبے سے نوازا۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی اللہ عزوجل کا ہمہ وقت شکر ادا کرتے رہتے کہ اللہ عزوجل نے انہیں اس نعمت عظمی سے سرفراز فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی وہ دعا جو آپ رضی  اللہ عنہ شکرانے کے طور پر اللہ عزوجل کے حضور مانگا کرتے تھے اللہ عزوجل نے اس کا ذکر قرآن پاک کی سورہ احقاف میں یوں فرمایا:

اے میرے رب! تو مجھے اس امر کی توفیق عطاء فرما کہ میں تیری نوازشوں اور نعمتوں کا جو تو نے اپنے فضل سے مجھ پر انعام فرمائی ہیں ان کا میں شکر ادا کر سکوں ان نعمتوں میں سے ایک نعمت اسلام ہے، اسی طرح جو نعمت تو نے میرے والدین کو عطا کی کہ وہ نعمت اسلام، زندگی اور قدرت ہے اور اے میرے خالق و مالک! مجھے اس امر کی توفیق عطا فرما کہ میں نیک عمل کر سکوں، ایسے نیک عمل جن کو تو پسند فرماتا ہے اور جو خالص تیری رضا کے لئے ہوں اور میری اولاد کو بھی اس نیک عمل کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرما، میں کسی ایسے عمل خیر کا طالب نہیں ہوں جس میں تیری رضا شامل نہ ہو، میں تیری ہی طرف گردن جھکائے ہوئے ہوں اور صرف تیرے ہی احکام کی بجا آوری کا طلبگار ہوں۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد جب حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی تمام زندگی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اللہ عزوجل کے احکامات کے تابع کر لی۔ آپ رضی اللہ عنہ اسلام کے اس قدر شیدائی تھے کہ ہر موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہے جنگ ہو یا امن ہر موقع پر دین اسلام کی سربلندی کے لئے کوشاں رہے۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی انہی قربانیوں کی وجہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

میں نے ہر ایک کے احسانوں کا بدلہ دے دیا ہے لیکن ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے احسانوں کا بدلہ روز محشر اللہ عزوجل خود دے گا۔

سکینۃ الاولیاء کے مصنف دارالشکوہ اپنی تصنیف میں بزرگان دین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ کوئی بھی صوفی اس وقت تک مقام فنا کو نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ صوفی خلوص نیت سے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیروی نہ کرے۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے:

میں نے کہا کہ میں پیغمبر ہوں تو وہ بغیر کسی معجزے کو دیکھے مجھ پر ایمان لے آیا، جب میں نے کہا کہ مجھے معراج کی سعادت حاصل ہوئی تو اس نے میرے واقعہ معراج کی تصدیق کی۔

 

اس پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں