سیرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
قسط نمبر 19
حضور نبی کریم صلی ﷺ کا وصال اور کیفیت حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
28 صفر المظفر کو حضور نبی کریم ﷺ جنت البقیع تشریف لے گئے۔ جنت البقیع سے واپسی پر حضور نبی کریم ﷺ کی طبیعت ناساز ہو گئی اور آپ ﷺ نے تمام ازواج مطہرات سے اجازت لے کر اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر قیام فرمالیا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم با وجود طبیعت ناسازی کے باقاعدگی سے نماز کے وقت امامت فرماتے رہے۔ جب طبیعت کچھ زیادہ ہی ناساز ہوئی تو آپ ﷺ نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ امامت فرمائیں۔
ایک روز ظہر کے وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت قدرے بہتر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا اور حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مسجد نبوی ﷺ میں تشریف لائے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وقت نماز ظہر کی امامت فرما رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی آہٹ سنی تو آپ رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے روکا اور نماز جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز ادا کی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میرے بعد میری قبر کو یہودیوں اور نصرانیوں کی طرح سجدہ گاہ مت بنا لینا اور میں تم کو انصار کے حق میں وصیت کرتا ہوں یہ لوگ میرے جسم کے پیرہن ہیں اور میرا زاد راہ رہے ہیں انہوں نے واجبات پورے کر دیئے اب ان کے حقوق باقی رہ گئے ہیں۔ ان میں سے اچھا کام کرنے والوں کی قدر کرنا اور لغزش کرنے والوں سے درگزر نہ کرنا۔ پھر فرمایا: ایک بندہ ایسا بھی ہے جس کے سامنے دنیا کو پیش کیا گیا مگر اس نے آخرت کو اختیار کیا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ میری جانب ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ میری جان اور میرا مال و متاع آپ ﷺ پر قربان ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر (رضی اللہ عنہ) تسلی رکھو۔ پھر فرمایا: ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے دروازے کے علاوہ مسجد کی طرف کھلنے والے تمام گھروں کے دروازے بند کر دو کیونکہ میں ایسا کوئی آدمی نہیں جانتا جو دوستی میں میرے نزدیک ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے افضل ہو۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے ابوبکر (رضی اللہ عنہ)! پوچھو! عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! وصال کا وقت قریب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وصال قریب ہے اور بہت ہی قریب آ گیا ہے۔ عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبارک، کاش ہم اپنے انجام کے بارے میں جانتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی طرف سدرۃ المنتہی کی طرف، پھر جنت الماوی کی طرف، فردوس اعلیٰ کی طرف، شراب طہور سے بھرے ہوئے پیالے اور رفیق اعلیٰ کی طرف مبارک زندگی کی طرف۔ عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ﷺ کو غسل کون دے گا؟ فرمایا: میرے قریبی، پھر ان کے قریبی۔ عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کفن کس کا دیا جائے؟ فرمایا: میرے ان کپڑوں میں اور یمنی لباس اور مصر کی سفید چادر میں۔ عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کیسے پڑھے؟ چنانچہ ہم رو دیئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رو دیئے۔ پھر فرمایا ٹھہرو! اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے اور تمہیں اپنے نبی سے بہتر جزا دے، جب تم مجھے غسل دو اور کفن دو تو پھر مجھے اس گھر میں میری قبر کے کنارے پر چار پائی رکھ دینا پھر مجھے تنہا چھوڑ کر باہر نکل جانا۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ مجھ پر صلوٰۃ وسلام پڑھے گا جو تم پر رحمتیں بھیجتا ہے اور اس کے بعد فرشتے تمہارے لئے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ پھر فرشتوں کو مجھ پر درود کی اجازت دی جائے گی اور سب سے پہلے اللہ کی مخلوق میں سے جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئیں گے وہ مجھ پر درود پڑھے گے۔ پھر میکائیل علیہ السلام، پھر اسرافیل علیہ السلام اور پھر ایک جماعت کثیر کے ساتھ عزرائیل علیہ السلام درود پڑھے گے۔ پھر تمام فرشتے آئیں گے اور اس کے بعد تم گروہ در گروہ داخل ہونا اور گروہوں کی صورت میں مجھ پر درود و سلام پڑھنا۔ چیخ و پکار اور رونے دھونے کے باعث مجھے تکلیف نہ دینا۔ سب سے پہلے تم میں سے امام ہی آغاز کرے۔ میرے اہل بیت قریب قریب شروع کریں۔ پھر عورتوں کا گروہ پھر بچوں کا گروہ آئے مجھ پر درود پڑھتا ہوا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر اطہر میں کون اُتارے گا؟ ارشاد فرمایا: میرے سب سے قریبی گھر والے پھر ان سے قریبی اور فرشتوں کی ایک بہت بڑی جماعت ان کے ساتھ ہوگی، تم انہیں نہیں دیکھ سکو گے لیکن وہ تمہیں دیکھیں گے۔ اب کھڑے ہو جاؤ اور میرے بعد آنے والوں تک اسے پہنچا دو۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو لوگ ہجوم کر آئے اور رونے کی آواز میں بلند ہونے لگیں۔ فرشتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ ﷺ کے کپڑوں میں لپیٹ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے متعلق لوگوں میں اختلاف ہو گیا۔ بعض نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کو جھٹلا دیا، بعض گونگے ہو گئے اور طویل مدت کے بعد بولنا شروع کیا۔ بعض لوگوں کی حالت خلط ملط ہو گئی اور بے معنی باتیں کرنے لگے، بعض باختہ ہو گئے اور بعض غم سے نڈھال ہو گئے۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا انکار کر دیا تھا، حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ غم سے نڈھال ہو کر بیٹھنے والوں میں تھے اور حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جو گونگے ہو کر رہ گئے تھے۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار میان سے نکال لی اور اعلان کر دیا کہ اگر کسی نے کہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا ہے تو میں اس کا سر قلم کر دوں گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح چالیس دن کے لئے اپنی قوم سے پوشیدہ ہو گئے ہیں اور چالیس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آجائیں گے۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب وصال کی اطلاع ملی تو اس وقتہ آپ رضی اللہ عنہ بنی حارث بنی خزرج کے ہاں تھے فوراً آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا پھر جھک کر بوسہ دیا اور فرمایا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ موت کا مزہ نہیں چکھائے گا۔ اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وصال فرما گئے۔ پھر لوگوں کے پاس باہر تشریف لائے اور فرمایا: اے لوگو! جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو یاد رکھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم وصال پاگئے ہیں اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا تو یادرکھے کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے بھی کئی رسول ہو چکے تو کیا اگر وہ وصال فرما جائیں یا شہید ہو جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی تو معلوم ہوتا تھا کہ ہم میں سے کوئی پہلے اس آیت کو جانتا نہ تھا۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب میں نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے منہ سے یہ آیت سنی تو مجھے یقین ہوا کہ واقعی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا ہے۔
روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خبر ملی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں حاضر ہوئے اور نبی کریم ﷺ پر درود شریف پڑھنے لگے، آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور ایسے ہچکیاں بھر رہے تھے جیسے کہ گھڑا چھلک رہا ہو مگر اس حالت میں بھی وہ قول و فعل میں مضبوط اور استقلال دکھا رہے تھے۔ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ کھولا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور رخساروں کو بوسہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور بے ساختہ رونے لگے اور کہہ رہے تھے: میرے ماں باپ میرے بیوی بچے اور میری جان آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں آپ ﷺ زندگی اور وصال ہر حال میں راضی رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہو گیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے انبیاء کرام علیہم السلام میں سے کسی کی وصال پر ختم نہیں ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوصاف عظیم کے مالک ہیں، گریہ سے بالاتر ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ خصوصیات حاصل ہیں یہاں تک کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سکون اور محفوظ ہو چکے ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں برابر ہو گئے اگر وصال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ ہوتا تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم کے لئے سب لوگ اپنی جانیں پیش کر دیتے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پانی کے چشمے چلا دیتے اور جس کی ہم سکت نہیں رکھتے یعنی غم اور آپ ﷺ کی یاد تو ہمیشہ تازہ رہے گی۔ اے اللہ تعالیٰ! ہماری یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اپنے رب کے پاس ہماری شفاعت فرمائیے گا۔ اے اللہ! اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ہمارا پیغام پہنچا دے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شدت غم سے نڈھال تھے مگر اس موقع پر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جس بلند ہمتی کا مظاہرہ کیا اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے اللہ عز وجل کا فرمان سنایا وہ اس بات کی قوی دلیل تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ سے زیادہ عالم بلند ہمت اور مضبوط دل شخص اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں کوئی نہ تھا اور آپ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان کی سلامتی بن کر آئے۔