0

سیرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قسط نمبر 20 خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

سیرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

قسط نمبر 20

خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ 

جانثار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امام الصديقين افضل البشر بعد از انبیاء علیہم السلام حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بلا شبہ سب سے بلند ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کی سربلندی کی خاطر بے شمار قربانیاں دیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدان ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی آپ رضی اللہ عنہ کو امامت کا حکم دیا تھا اور بوقت وصال یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں اللہ عز وجل کے سوا کسی کو دوست رکھتا تو وہ یقیناً ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ہی ہوتا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب جانشینی کا مسئلہ پیدا ہوا تا کہ اُمت کو متحد رکھا جا سکے تو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ رضی اللہ عنہ کے دست حق پر بیعت کر لیا اور آپ رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ منتخب ہوئے۔

حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دست حق پر بیعت سب سے پہلے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کی اور بیعت کرتے ہوئے فرمایا: بلا شبہ آپ رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے بہتر ہیں اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب ہیں اس لئے ہمیں آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت میں کسی بھی قسم کا کوئی اعتراض نہیں۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جس وقت خلافت کا منصب سنبھالا اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک اکسٹھ (61) برس تھی۔ حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ بنو ہاشم کی ایک چھوٹی سی جماعت کے علاوہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ رضی اللہ عنہ کے دست حق پر بیعت کر لی تھی اور آپ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تسلیم کر لیا تھا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منصب خلافت پر بیٹھتے ہوئے مجمع عام سے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:

اے لوگو! میں تمہارے کاموں پر تمہارا نگران بنایا گیا ہوں، میں تم میں سے ہوں اور تم سے کسی طرح بہتر نہیں ہوں، جب میں کوئی اچھا کام کروں تو تم میری مدد کرنا اور اگر تم مجھ میں کوئی کوتاہی دیکھو تو تم مجھے راہ راست پر آنے کی نصیحت کرنا، یاد رکھو راست بازی امانت ہے اور تم میں سے ہر کمزور میرے نزدیک طاقتور ہے جب تک میں اسے حق نہ دلوادوں اور ہر قوی میرے نزدیک کمزور ہے جب تک میں اس سے حق نہ لے لوں، جو لوگ جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتے ہیں اللہ ان کو ذلیل کر دیتا ہے، جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے اللہ عز وجل اس قوم کو غرق کر دیتا ہے، میں جس کام میں اللہ عز وجل اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تم میری اطاعت سے انکار کر دو۔

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی بیعت کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت میں اس لئے تاخیر فرمائی کہ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک وہ قرآن پاک جمع نہیں کر لیتے اس وقت تک نماز کے سوا بھی اپنی چادر نہ اوڑیں گے۔ جس وقت حضرت سیدنا على المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بیعت کے لئے حاضر ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بھی ذکر کیا جو کلام حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس بات کا بھی برملا اقرار کیا کہ شروع میں ہم سمجھتے تھے کہ خلافت بنو ہاشم کا حق ہے کیونکہ ہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار ہونے کی وجہ سے اسے اپنا حق سمجھتے تھے۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا کلام سنا تو آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ عز وجل کی قسم! میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز واقارب کو اپنے عزیز واقارب سے بہتر جانتا ہوں۔ اس کلام کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے درمیان غلط فہمی دور ہو گئی اور دونوں کے دل ایک دوسرے کے معاملے میں صاف ہو گئے۔

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی جانب سے بیعت کی تاخیر کو کئی لوگوں نے غلط رنگ دینے کی کوشش کی اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی ان کی جانب سے غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش کی لیکن حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی بردباری اور تدبر کے ساتھ اس تمام معاملے کو خوش اسلوبی سے طے کیا۔

حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو منصب خلافت پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے ان قبائل کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑا جنہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جانب سے مشورہ دیا گیا کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ جنہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر دے رومیوں کے خلاف مہم جوئی کے لئے بھیجا تھا انہیں واپس بلا لیں مگر آپ رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا کہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف نہیں کر سکتا۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو کچھ لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اعتراض کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! اگر تمہیں یہ گمان ہے کہ میں نے خلافت تم سے اس لئے لی ہے کہ مجھے اس میں رغبت ہے یا مجھے تم پر کچھ فوقیت حاصل ہے تو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں نے خلافت کو خلافت کی طرف رغبت کرتے ہوئے یا تم پر یا کسی مسلمان پر ترجیح حاصل کرنے کے لئے نہیں لی اور نہ مجھے کبھی بھی رات اور دن میں اس کا لالچ پیدا ہوا اور نہ ہی میں نے چھپ کر اور نہ ہی اعلانیہ اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کیا اور بے شک میں نے ایک ایسی بڑی بات کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لیا جس کی مجھ میں طاقت نہیں ہاں اگر اللہ عز وجل نے میری مدد فرمائی۔ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ یہ کسی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہو جائے اس شرط پر کہ وہ اس سے انصاف کرے۔ پس میں یہ خلافت تم پر واپس کرتا ہوں اور آج سے میں بھی تمہاری طرح ایک عام شخص ہوں۔

حضرت ابو الجحاف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی اس تقریر کے بعد اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ تین دن تک مسلسل اپنے گھر سے نکلتے اور یہ کہہ کر واپس چلے جاتے کہ میں نے تمہاری بیعت کو واپس کیا۔ اس دوران حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو جاتے اور فرماتے: بے شک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو ہمیشہ مقدم رکھا ہے ہم بھی آپ رضی اللہ عنہ کو مقدم رکھتے ہیں۔ پس کون ہے ایسا جو آپ رضی اللہ عنہ کو اس منصب سے ہٹائے۔

حضرت زید بن علی رحمہ اللہ اپنے آباؤ اجداد سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب منبر پر کھڑے ہو کر تقریر کی اور خلافت کو واپس کیا تو حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا: اللہ کی قسم! ہم اس بیعت کو ہرگز واپس نہ کریں گے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو ہم میں سے ہر ایک پر مقدم رکھا ہے۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت کا آغاز نہایت ہی مخدوش حالات میں کیا کیونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد کئی فتنے نمودار ہو گئے لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی ذہانت اور بصیرت کی بدولت ان تمام معاملات کو بخوبی نبھایا اور صحیح طور پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین ہونے کا حق ادا کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی انہی خدمات کی بدولت آپ رضی اللہ عنہ کو دین اسلام کو نئی زندگی بخشنے والا قرار دیا گیا۔

 

 

اس پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں