0

سیرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قسط نمبر 21 منکرین زکوٰۃ اور نبوت کے جھوٹے دعویداروں کا انجام

 سیرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

قسط نمبر 21

منکرین زکوٰۃ اور نبوت کے جھوٹے دعویداروں کا انجام

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جس وقت منصب خلافت پر سرفراز ہوئے اس وقت سب سے پہلے جو مسئلہ آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لئے کھڑا ہوا وہ منکرین زکوٰۃ تھے۔ وہ قبائل جو زکوٰۃ کے منکر ہوئے وہ بدستور توحید اور رسالت کا اقرار تو کرتے تھے مگر زکوٰۃ کی ادائیگی میں پس و پشت سے کام لیتے تھے۔ زکوٰۃ چونکہ دین اسلام کا ایک فرض رکن ہے اس لئے آپ رضی اللہ عنہ نے ان منکرین زکوٰۃ کے خلاف ایک لشکر ترتیب دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ رضی اللہ عنہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمیں اس وقت منکرین زکوٰۃ کے ساتھ نرمی کا سلوک کرنا چاہئے تا کہ وہ دین اسلام سے متنفر نہ ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا:

اللہ کی قسم! جو شخص حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بکری کا ایک بچہ بھی زکوٰۃ میں دیتا تھا اور اب اس کے دینے سے انکاری ہے میں اس کے خلاف جہاد کروں گا۔

آپ رضی اللہ عنہ کی اس ایمان آفروز تقریر کو سن کر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کو سراہا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منکرین زکوٰۃ کی سرکوبی کے لئے لشکر بھیجا جس نے ان کو تابع کیا اور دوبارہ سے زکوٰۃ کا نظام نافذ کیا۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی فرما دیا تھا کہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت مرض میں ہی یہ پیشین گوئی کر دی تھی کہ میرے بعد جھوٹے نبی پیدا ہوں گے جو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کریں گے۔ چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو مسیلمہ کذاب جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے ہی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اور اس کی باتوں پر بنو حنیفہ کے لوگ ایمان لے آئے تھے آپ رضی اللہ عنہ نے اس نبوت کے جھوٹے دعویدار کی سرکوبی کے لئے حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کی مدد کے لئے شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا لیکن حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے آنے سے پہلے ہی حملہ کر دیا اور انہیں دشمن کی فوج سے نقصان اٹھانا پڑا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو انہوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا جنہوں نے نبوت کے اس جھوٹے دعویدار کا قلع قمع کیا اور اسے جہنم واصل کیا۔ مسیلمہ کذاب کی موت کے بعد اس کے سپاہیوں کی کمر ٹوٹ گئی اور انہوں نے شکست تسلیم کر لی اور یوں یہ باطل فتنہ نبوت خاک میں مل گیا۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک اور نبوت کے جھوٹے دعویدار ابن صیاد نے اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ ابن صیاد جادو میں مہارت رکھتا تھا جس کی وجہ سے وہ سادہ لوح لوگوں کو بے وقوف بناتا اور انہیں اپنی نبوت کی دلیل دیتا تھا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ابن صیاد کے ساتھ مکالمہ کیا تو نبوت کا یہ جھوٹے دعویدار بھاگ گیا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبوت کے اس جھوٹے دعویدار کا قلع قمع کر کے اس فتنہ کو خاک میں ملا دیا۔ اسود عنسی کا شمار بھی نبوت کے جھوٹے دعویداروں میں ہوتا ہے۔ اس نے بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نبوت کا جھوٹا دعوی کیا۔ اسود عنسی کا تعلق یمن سے تھا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اس فتنہ کا قلع قمع کرنے کے لئے روانہ کیا تھا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اسود عنسی کو جہنم واصل کیا تو اس وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو چکا تھا۔ چنانچہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بننے کے بعد جو پہلی خوشخبری ملی تھی وہ اس نبوت کے جھوٹے دعویدار کے خاتمے کی تھی۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب خلافت سنبھالی تو بنی تمیم کی ایک خوبرو حسینہ سجاع بنت حارث تمیمیہ نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا۔ یہ عورت مذہباً عیسائی تھی اور بہت ہی اچھی شعلہ بیان تھی اور اپنی اسی فصاحت کی بدولت اس نے بہت سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کر لیا تھا۔ سجاع نے ایک کذاب سے شادی کی اور جب کذاب کا انجام نہایت ہی عبرت ناک ہوا تو اس کے پیروکاروں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا جس کے بعد یہ کاذب عورت میدان جنگ سے بھاگ گئی اور گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ کچھ روایات میں موجود ہے کہ اس کاذب عورت نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں بصرہ آکر توبہ کر لی تھی اور دین اسلام قبول کر لیا تھا۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے ابتدائی مہینوں میں سلطنت اسلامی کو مستحکم کرنے کی طرف اپنی ساری توجہ مرکوز رکھی اور تمام چھوٹے بڑے فتنوں، منکروں اور مرتدوں کا خاتمہ کیا اور جتنی بھی بغاوتیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد شروع ہوئی تھیں سب کا قلع قمع کیا۔ یہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے مختصر دور خلافت میں اُمت مسلمہ کو لاحق تمام بڑے فتنوں اور خطروں کا خاتمہ ہوا اور اسلام کے خلاف سازشوں کا جو جال بچھایا جا رہا تھا وہ ٹوٹ گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین پر کس قدر پختہ اور صادق یقین رکھتے ہیں اور ختم نبوت کی خاطر کسی بھی بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کر سکتے۔

 

اس پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں