0

سیرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قسط نمبر 23 سیرت مبارکہ

سیرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

قسط نمبر 23

سیرت مبارکہ

اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کافی ہیں:

9 ہجری میں جب غزوہ تبوک کے موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اپیل کی کہ وہ حسب توفیق جنگ میں شمولیت کے لئے مال و متاع پیش کریں۔ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے تین سو اونٹ سو گھوڑے اور دو سو اوقیہ چاندی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کئے۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا آدھا سامان لے کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے چالیس ہزار در ہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کئے۔ جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی باری آئی تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کا تمام سامان پیش کر دیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے پوچھا: ابوبکر (رضی اللہ عنہ)! گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کافی ہیں۔

دینی بصیرت:

عربوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو عرب بالخصوص عجم کے رہنے والے نہایت فصیح و بلیغ ہوتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بلا شبہ بہت بڑے مقرر تھے اور احسن الکلام تھے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر اثر رہ کر ایک بہت بڑے مقرر بن گئے تھے۔ ابن کثیر نے بیان کیا ہے کہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو فصاحت و بلاغت میں دیگر اصحاب پر فوقیت حاصل تھی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپ رضی اللہ عنہ کی دینی بصیرت کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ سے مختلف امور میں مشورہ کیا کرتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کو مشیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ چونکہ علوم وفنون میں خاصی مہارت رکھتے تھے اور اس کے علاوہ تعبیر الرویا میں بھی مہارت حاصل تھی۔ ابن سعد نے لکھا ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے سب سے زیادہ معتبر تھے۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وظیفہ:

ابن عساکر کی روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں منتقل ہونے کے بعد ایک جھونپڑا بنا رکھا تھا اور آپ رضی اللہ عنہ کی یہ رہائش گاہ بنو حارث بن خزرج کے محلہ میں تھی اور خلیفہ بننے کے چھ ماہ تک آپ رضی اللہ عنہ وہیں پر قیام پذیر رہے اور روزانہ پیدل مدینہ منورہ آتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں بھی کپڑے کی تجارت کرتے تھے اور خلیفہ بننے کے بعد بھی یہی پیشہ آپ رضی اللہ عنہ کی کمائی کا ذریعہ تھا۔ ایک روز آپ رضی اللہ عنہ کپڑا کندھے پر اٹھائے مدینہ منورہ کے بازار میں جا رہے تھے کہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو گئی۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ (رضی اللہ عنہ) کہاں جا رہے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بازار تجارت کے لئے جا رہا ہوں تا کہ اپنے اہل وعیال کے کھانے کا بندو بست کر سکوں۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: آپ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے معاملات کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں اس لئے آپ رضی اللہ عنہ اپنے لئے کچھ وظیفہ بیت المال سے مقرر فرمالیں تاکہ آپ بھی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیٹھ کر لوگوں کے معاملات کو دیکھ سکیں۔ چنانچہ اس واقعہ کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور دیگر اکابرین کی مشاورت سے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وظیفہ تین سو درہم ماہوار مقرر کر دیا گیا۔

عدل صدیقی:

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جمعہ کے روز خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: جب کل کا دن آئے تو اونٹوں کے صدقات یہاں حاضر کر دینا ہم اسے تقسیم کریں گے اور میرے پاس کوئی بھی بلا اجازت نہ آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی بات سن کر ایک عورت نے اپنے شوہر سے کہا: یہ نکیل لو شاید اللہ تعالیٰ ہمیں بھی کوئی اونٹ دے دے۔ وہ آدمی اگلے روز نکیل لے کر آگیا۔ اس نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اونٹوں کے درمیان داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی ان کے پیچھے داخل ہو گیا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب اس شخص کو دیکھا تو دریافت کیا کہ تم بلا اجازت یہاں کیوں آئے ہو اور اسے جھڑک دیا۔ بعد میں جب آپ رضی اللہ عنہ اونٹوں کی تقسیم سے فارغ ہوئے تو اس شخص کو بلایا اور اس کو ایک اونٹ، اونٹ کا کجاوہ، ایک دھاری دار کمبل اور پانچ دینار دیتے ہوئے اس سے معذرت طلب کی۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر فرمایا: ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کا عدل بے مثال ہے۔

زہد و تقویٰ:

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پانی کا گلاس طلب فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک برتن پیش کیا گیا جس میں پانی اور شہد تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس برتن کو اپنے ہاتھ میں لیا اور رونا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد جب آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا چہرہ پونچھا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ آپ رضی اللہ عنہ کو کسی چیز نے رونے پر مجبور کیا؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک مرتبہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاس سے کسی چیز کو دفع فرما رہے تھے۔ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا نے میری طرف ہاتھ بڑھایا تھا تو میں نے اس سے کہا کہ ہٹ! تو مجھ سے دور ہو جا۔ میں بھی اس ڈر سے کہ کہیں پانی اور شہد کی وجہ دنیا مجھے نہ مل جائے اور میں امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر بیٹھوں۔

حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب خلیفہ مقرر ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا تمام مال اسباب بیت المال میں جمع کروادیا اور فرمایا: میں اس مال کے ذریعے تجارت کرتا تھا اور اس کے ذریعے اپنے اہل و عیال کا رزق تلاش کرتا تھا اب جب میرا وظیفہ مقرر کر دیا گیا ہے تو مجھے مال اسباب کی کچھ ضرورت باقی نہیں۔

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ناراضگی:

حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نہایت پشیمانی کی حالت میں آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میرے اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے درمیان جھگڑا ہو گیا اور میں نے ان کو بُرا بھلا کہہ دیا۔ بعد میں جب میں نے ان سے معافی مانگی تو انہوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کی بات سن کر فرمایا: باری تعالیٰ! ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کی مغفرت فرما۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمہ تین مرتبہ ادا کیا۔ کچھ دیر بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اللہ عز وجل نے مجھے تمہارے پاس بھیجا اور تم لوگوں نے مجھے جھوٹا بتایا یہ ابو بکر (رضی اللہ عنہ) ہی تھے جنہوں نے میری تصدیق کی اور اپنی جان و مال سے میری غم خواری کی، کیا اب تم میرے لئے میرے ساتھی کو نہ چھوڑو گے؟ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ کلام سنا تو رو دیئے اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو معاف فرمادیا۔

حضرت سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا راضی ہونا:

شعبی کی روایت ہے کہ جب حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے گھر کے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تمہاری عیادت کے لئے آئے ہیں اگر اجازت ہو تو انہیں بلالوں۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اندر تشریف لائے اور حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا حال و احوال دریافت کرنے کے بعد فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے گھر، مال، اہل اور خاندان محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرنے اور ان کے اہل بیت کو راضی کرنے کے لئے چھوڑے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی بات سن کر حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے اپنی ناراضگی ختم کر دی۔

امام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم:

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فصاحت و بلاغت کے بارے میں فرمایا کہ بے شک ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر بڑی عمدہ ہے اور وہ بہت بڑے عالم ہیں۔

شیخ ابو اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑے عالم تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی انہیں اپنے متعدد فقہی مسائل کے لئے آپ رضی اللہ عنہ سے رجوع فرماتے تھے۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چونکہ ابتداء سے ہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو بے شمار احادیث اور فرمودات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا علم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات پر متفق تھے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بلاشبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد خلافت کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔

رضوان اکبر:

روایات میں موجود ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بار قبیلہ عبد القیس کا ایک وفد حاضر ہوا۔ اس وفد کے امیر نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پورے القابات و احترامات کو ملحوظ رکھ کر بات چیت کی۔ اس امیر کی گفتگو اور الفاظ کے استعمال سے حاضرین محفل بہت متاثر ہوئے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ابوبکر (رضی اللہ عنہ) تم نے ان کی بات سنی ہے اب تم ان کی بات کا جواب دو۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بڑی متانت اور ذہانت کے ساتھ ان کی باتوں کا جواب دیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے یار غار سے بے حد خوش ہوئے اور فرمایا: ابوبکر (رضی اللہ عنہ)! اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمت فرمائے اور تمہیں رضوان اکبر عطا فرمائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یہ رضوان اکبر کیا ہے؟ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روز محشر اللہ عز وجل تمام مسلمانوں پر عام تجلی فرمائے گا جبکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے خاص تجلی فرمائے گا اور اس تجلی کا نام رضوان اکبر ہے۔

بہترین منتظم:

ابن سعد کی روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بطور خلیفہ بہترین منتظم تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بیت المال کا کوئی چوکیدار نہ تھا۔ بیت المال میں جو کچھ آتا وہ فوراً تقسیم فرما دیتے تھے۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ پہلے سال غلام اور آزاد کو مرد اور عورت کو ہر ایک کو دس دس دینار دیتے تھے۔ دوسرے سال ہر ایک کو بیس دینار دیئے جاتے تھے۔ کچھ لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ بعض لوگوں کو دوسروں پر اسلام پہلے لے آنے کی وجہ سے فضیلت حاصل ہے آپ رضی اللہ عنہ سب میں مال برابر کیوں تقسیم فرماتے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ کو چاہئے کہ افضلیت والے صحابہ کو ترجیح دیں۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فضیلت کا اجر تو اللہ عز وجل دے گا بیت المال تو ذریعہ معاش ہے اور اس میں تمام مسلمان برابر ہیں۔

کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ:

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم نے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے زیادہ بڑھ کر منصف کسی کو نہیں دیکھا اس لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ افضل ہیں۔ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے ان کی بات سن کر فرمایا: تم جھوٹ بولتے ہو۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی بات کی تائید کرتے ہوئے فرمایا: عوف (رضی اللہ عنہ) درست کہتا ہے۔ اللہ کی قسم! ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ تھے اور میں اپنے گھر والوں کے لئے اونٹ سے زیادہ بے راہ ہوں۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو نصیحت:

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نئے کپڑے پہنے اور کپڑے پہننے کے بعد گھر میں چل پھر کر اپنے کپڑوں کو دیکھ رہی تھی کہ اس دوران میرے والد محترم امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہوئے فرمایا: عائشہ (رضی اللہ عنہا)! تجھے معلوم نہیں کہ جب بندے کے دل میں دنیوی رغبت پیدا ہو جائے تو اللہ عز وجل اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔ میں نے آپ رضی اللہ عنہ کی بات سن کر ان کپڑوں کو اُتار کر خیرات کر دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کو جب پتہ چلا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عائشہ (رضی اللہ عنہا)! یہ تیرے لئے کفارہ ہے۔

اہل بدر کا مرتبہ:

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ آپ رضی اللہ عنہ اہل بدر کو گورنر کیوں مقرر نہیں فرماتے جب کہ ان کا مقام بہت بلند ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اہل بدر کے مراتب جانتا ہوں اس لئے چاہتا ہوں کہ وہ دنیا میں ملوث نہ ہوں۔

مسلمانوں کے اموال کے نگہبان:

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب خلیفہ مقرر ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ کے اخراجات بیت المال سے ملنے والی تنخواہ سے چلنے لگے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی تنخواہ قلیل تھی جو بقدر ضروریات کے لئے نا کافی تھی۔ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے حلوہ کھانے کی فرمائش کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں تمہیں حلوہ کھلا سکوں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے آپ رضی اللہ عنہ کی تنخواہ میں سے کچھ رقم بچانا شروع کر دی اور جب وہ اس قابل ہو گئیں کہ حلوہ پکا سکتیں تو انہوں نے اس رقم سے حلوے کا سامان خریدنے کے لئے رقم حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دی کہ وہ حلوے کا سامان خرید لائیں۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ میری تنخواہ میں حلوہ نہیں پک سکتا تمہارے پاس یہ پیسے کہاں سے آئے؟ آپ رضی اللہ عنہ کی زوجہ نے سارا ماجرا بیان کیا کہ کس طرح انہوں نے ہر ماہ تنخواہ میں سے کچھ رقم بچا کر حلوے کے لئے پیسے جمع کیے ہیں۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب اپنی زوجہ کی بات سنی تو فرمایا: اللہ عز وجل نے مجھے مسلمانوں کے اموال کا نگہبان بنایا ہے اور میں بیت المال سے اتنی رقم زیادہ لے رہا تھا کہ حلوہ پکا سکتا۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی تنخواہ میں کمی کروادی۔

صلح میں شمولیت:

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ ملاقات کے لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے گئے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں موجود تھے۔ حجرہ مبارک کے اندر سے اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کی بلند آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حجرہ مبارک میں داخل ہوئے اور اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا کہ آئندہ میں تمہاری آواز کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند نہ سنوں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ڈانٹنے سے منع فرمایا تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غصے کی حالت میں حجرہ مبارک سے باہر چلے گئے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ دیکھو میں نے تمہیں کیسے تمہارے باپ سے چھڑایا ہے۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دوبارہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے درمیان صلح ہو چکی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائی میں جس طرح میں شامل ہوا تھا اس طرح مجھے اپنی صلح میں بھی شامل فرما لیجئے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو اپنی صلح میں شامل فرمالیا۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اولیات:

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے قرآن مجید کو جمع فرمایا اور اس کا نام مصحف رکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کو پہلا خلیفہ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے باپ کی زندگی میں خلیفہ بنے اور جب وصال ہوا تو والدین زندہ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ تھے جن کی تنخواہ مقرر کی گئی اور جنہوں نے بیت المال کی بنیاد رکھی۔ آپ رضی اللہ عنہ پہلے شخص تھے جن کا لقب رکھا گیا اور آپ رضی اللہ عنہ عتیق اور شیخ الاسلام کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ پہلے شخص تھے۔ جنہوں نے کسی بھی قسم کے شبہ سے بچنے کے لئے قے کی۔ آپ رضی اللہ عنہ پہلے شخص تھے جن کو ان کی اہلیہ نے غسل دیا تھا۔

احادیث کا روایت کرنا:

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ احادیث کی روایت میں نہایت ہی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث کی تعداد ایک سو چوالیس (144) ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ سے بے شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ نے احادیث روایت کی ہیں۔

چار بہترین عادات:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے دریافت فرمایا کہ آج تم میں سے کون روزہ دار ہے؟ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں روزہ دار ہوں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کس نے آج کسی مریض کی عیادت کی ہے؟ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ میں نے آج مریض کی عیادت کی۔ حضور نبی کریم سلیم نے پھر دریافت کیا: کس شخص نے آج نماز جنازہ ادا کی؟ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پھر کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے آج فلاں مومن کی نماز جنازہ ادا کی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا: تم میں سے کون ہے جس نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا۔ اس مرتبہ پھر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے آج ایک مسکین کو کھانا کھلایا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے جس شخص میں یہ چاروں عادات موجود ہوں گی وہ جنت میں میں جائے گا۔

لوگوں کی فضیلت:

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اونٹنی پر سوار تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ جہاں سے گزرتے لوگوں کو السلام علیکم کہتے۔ اس دوران لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو جواب میں السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ کہتے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: عمر (رضی اللہ عنہ)! آج یہ لوگ ہم سے زیادہ فضیلت لے گئے۔

تین فضیلت والے صحابہ:

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ تقریر کرتے ہوئے فرمایا: قریش میں سے تین حضرات ایسے ہیں جو تمام لوگوں سے زیادہ روشن چہرہ اور حسن اخلاق والے اور سب سے زیادہ حیاء والے ہیں اور اگر وہ تم سے بات کریں تو کبھی جھوٹ نہ بولیں، اگر تم ان سے خود بات کرو تو وہ تمہاری تکذیب نہیں کرتے۔ یہ حضرات سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ہیں۔

دودھ دوہنا:

حضرت انیسہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قبیلہ کی باندیاں اپنی بکریاں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس لاتیں اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان سے فرماتے کہ کیا تم پسند کرتی ہو کہ میں تمہاری بکریوں کے دودھ دوہوں جیسا کہ عفرا رضی اللہ عنہا کا بیٹا دوہا کرتا تھا۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کاروباری لحاظ سے کپڑے کی تجارت کرتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک بکریوں کا ریوڑ بھی تھا جسے آپ رضی اللہ عنہ خلیفہ بننے سے پہلے چرانے لے جاتے تھے اور ان کا دودھ بھی خود دوہتے تھے۔ اس دوران آپ رضی اللہ عنہ اپنے قبیلے کی بکریوں کا دودھ بھی دوہا کرتے تھے۔ جب آپ رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو قبیلہ کی ایک جاریہ خاتون نے آپ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اب آپ رضی اللہ عنہ ہماری بکریوں کے دودھ نہیں دوہیں گے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں اب بھی تمہاری بکریوں کا دودھ دوہا کروں گا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ روزانہ بلا ناغہ ان بکریوں کا دودھ دوہتے اور کبھی کبھی اس جاریہ خاتون سے پوچھتے کہ دودھ میں جھاگ رہنے دوں یا نہیں؟ وہ جس طرح کہتی آپ رضی اللہ عنہ اس طرح کرتے۔

کام کو گزرنے والا:

ابن سعد میں حضرت ابوسفر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کچھ لوگ ان کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے۔ لوگوں نے عرض کیا: اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم آپ رضی اللہ عنہ کے لئے کسی طبیب کو نہ بلوائیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: طبیب نے مجھے دیکھا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر طبیب نے آپ رضی اللہ عنہ سے کیا کہا؟ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: طبیب کہتا ہے میں ہر اس کام کو گزرنے والا ہوں جس کا ارادہ کرتا ہوں۔

کہانت کا مال:

حضرت محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سوائے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کسی کو نہیں جانتا کہ جس نے کھانے سے قے کی ہو جسے کھایا ہو۔ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے کھانا کھایا اور قے کر دی۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کہ یہ کھانا کہاں سے آیا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا کہ یہ کھانا ابن نعمان لائے ہیں۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم لوگوں نے مجھے ابن نعمان کی کہانت کا مال کھلا دیا۔

حرام سے پرورش:

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو غلہ وغیرہ لایا کرتا تھا۔ وہ ایک رات حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کھانا لایا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس میں سے ایک لقمہ کھایا تو غلام نے عرض کیا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے آج مجھ سے دریافت نہیں کیا کہ میں یہ کھانا کہاں سے لایا ہوں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسا بھوک کی وجہ سے ہوا تم مجھے بتاؤ کہ کھانا کہاں سے لائے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ میرا گزر زمانہ جاہلیت میں ایک ایسی قوم سے ہوا جن کے لئے میں نے منتر کیا اور انہوں نے مجھے کچھ دینے کا وعدہ کیا آج جب میں دوبارہ اسی قوم سے گزرا تو ان کے ہاں شادی تھی انہوں نے مجھے کھانا دیا جو میں نے آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فورا ہی حلق میں انگلی ڈال کر وہ لقمہ باہر نکال دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک لقمہ کے لئے یہ مشقت کیوں برداشت کی؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس جسم کی پرورش حرام کے لقمہ سے ہوئی اس کا جسم جہنم کا مستحق ہے۔ مجھے ڈر ہوا کہ اگر یہ لقمہ میرے جسم میں چلا گیا تو میرے جسم کا کوئی حصہ اس سے پرورش نہ پالے۔

خلاف شرع بات:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ منبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر تشریف لائے اور اللہ عز وجل کی حمد و ثناء کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا پھر اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور اس جگہ رکھے جس جگہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوتے تھے اس کے بعد فرمایا: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ تشریف فرما تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ذیل کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:

يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمُ انْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِرَاهْتَدِيتُم . (سورة المائده: (14)

کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں خلاف شرع بات نہ کی جاتی ہو اور اس میں قباحت کا ارتکاب کیا جاتا ہو اور یہ قوم اس فساد کو دور نہ کرے اور نہ ہی اس پر انکار کرے مگر اللہ عز وجل حق پر ہے وہ ان کو گرفتار کرے سزا دے اور ان کی دعاؤں کو رد کرے۔

اس کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی دو انگلیوں دونوں کانوں میں ڈال دیں اور فرمایا کہ اگر میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث نہ سنی ہو تو میرے دونوں کان بہرے ہو جائیں۔

نفس کا محاسبہ:

اخرج بن ابی الدنیا فی محاسبۃ النفس میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے اور اللہ عز وجل کی خوشنودی کے لئے اپنے نفس پر ناراض ہوتا ہے تو اللہ عز وجل اس شخص کو اپنے نفس سے ناراضگی کے عوض اپنے امن میں رکھتا ہے۔

توحید کا کمال:

حدیث شریف میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے جب اللہ عز وجل اور میرے درمیان صرف حضرت جبرائیل علیہ السلام سما سکتے ہیں اور اس گھڑی میں روح کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور یہی مرتبہ توحید کا کمال ہے۔ ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اس کیفیت میں تھے کہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حاضر ہوئیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کون ہے؟ آپ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون عائشہ (رضی اللہ عنہا)؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ابوبکر (رضی اللہ عنہ ) کی بیٹی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ابوبکر (رضی اللہ عنہ)؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ابو قحافہ (رضی اللہ عنہ) کے بیٹے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ابو قحافہ (رضی اللہ عنہ)؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی تو آپ رضی اللہ عنہا اتنا روتی ہوئی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور سارا ماجرا گوش گزار کیا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسی کیفیت طاری ہو تو تم خاموش رہا کرو اور با ادب کھڑی ہوا کرو۔

خدمت خلق:

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک بوڑھی نابینا عورت مدینہ منورہ کے نواح میں رہتی تھی۔ وہ بوڑھی نابینا عورت اس قدر کمزور تھی کہ گھر کے معمولی کام کاج بھی نہ کر سکتی تھی۔

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جب اس بوڑھی نابینا عورت کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے سوچا کہ وہ جا کر اس بوڑھی نابینا عورت کے گھر کا کام کاج کر آئیں۔ جب آپ رضی اللہ عنہ اس بڑھیا کے گھر پہنچے تو آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اس نابینا بڑھیا کے گھر کی صفائی ہوئی تھی گھر میں پانی بھی بھرا ہوا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس بوڑھی نابینا عورت سے دریافت کیا تو اس نے کہا مجھے معلوم نہیں کوئی شخص صبح سویرے آتا ہے اور میرے گھر کی صفائی کرتا ہے پانی بھرتا ہے اور مجھے کھانا کھلا کر چلا جاتا ہے۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس نا بینا بڑھیا کی بات سننے کے بعد ارادہ کیا کہ وہ اگلے روز علی الصبح آئیں گے اور دیکھیں گے کہ وہ کون شخص ہے جو اس نابینا بڑھیا کے گھر کے کام کاج کرتا ہے۔ جب آپ رضی اللہ عنہ اگلے روز نماز فجر کے بعد آئے تو وہ شخص اس نا بینا بڑھیا کے گھر کی صفائی اور پانی بھر کے جا چکا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ اب میں اگلے روز نماز فجر سے پہلے آؤں گا اور دیکھوں گا کہ وہ شخص کون ہے؟ اگلے روز آپ رضی اللہ عنہ نماز فجر سے پہلے اس نابینا بڑھیا کے گھر آئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس نابینا بڑھیا کے گھر کی صفائی کر رہے ہیں۔ صفائی کرنے کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پانی بھرا اور پھر اس نا بینا بڑھیا کو کھانا کھلایا اور چلے گئے۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ منظر دیکھ کر فرمایا: اللہ کی قسم! ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے سبقت لے جانا ممکن نہیں۔

سادگی اور انکساری:

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے کام خود کرتے تھے بلکہ دوسروں کی بھی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ دورانِ سفر اگر گھوڑے کی لگام ہاتھ سے چھوٹ جاتی تو خود ہی گھوڑے سے اتر کر لگام تھامتے۔ منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد بھی آپ رضی اللہ عنہ کے عجز و انکساری میں کوئی کمی نہیں آئی۔

ایک مرتبہ یمن کا بادشاہ اپنے شاہانہ لباس کے ساتھ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو صرف دو چادروں میں ملبوس دیکھا تو وہ آپ رضی اللہ عنہ کی سادگی دیکھ کر حیران رہ گیا اور فاخرانہ لباس اُتار کر سادگی اختیار کر لی۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسراف اور فضول خرچی کے بارے میں سوچتے بھی نہ تھے اور تن ڈھانپنے کے لئے جب نیا کپڑا بیت المال سے حاصل کرتے تو پرانا لباس بیت المال میں جمع کرا دیتے۔

عظمت کا اقرار:

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم چاہو بھی تو اپنی عظمت کے اقرار سے نہیں بھاگ سکتے لیکن اگر تم موت کے متمنی ہو تو زندگی تم پر نچھاور ہوتی رہے گی۔

مشرکین کو لا جواب کرنا:

ہجرت سے پہلے ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مشرکین مکہ کے درمیان موجود تھے اور ان کے کئی سوالات کے جواب دے رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ مشرکین مکہ کو توحید کا ذکر فرما رہے تھے اور انہیں سمجھا رہے تھے کہ اللہ عز وجل بے نیاز ہے اور اس کی کوئی اولاد نہیں اور وہ ہر شے سے پاک ہے۔ مشرک کہنے لگے کہ فرشتے تو سچ مچ بیٹیاں ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ان کو بہت سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے اور کہتے رہے کہ فرشتے تو بیٹیاں ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ اگر فرشتے بیٹیاں ہیں تو ان کی مائیں کون ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ کا سوال سن کر مشرکین چکرا گئے اور کہنے لگے کہ جن سرداروں کی بیٹیاں فرشتوں کی مائیں ہیں۔

عید کے دن انہیں چھوڑ دو:

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ عید کے روز میرے پاس دو لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں اور وہ گیت گا رہی تھیں جبکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کپڑا اوڑھے میرے نزدیک ہی لیٹے ہوئے تھے۔ اس دوران حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے مجھے دیکھتے ہی ڈانٹا کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد یہ کیسی محفل سجا رکھی ہے؟ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابو بکر (رضی اللہ عنہ) آج عید کا دن ہے انہیں چھوڑ دو۔

عوام الناس کو عدل و انصاف کی فراہمی:

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عوام الناس کو عدل و انصاف کی فراہمی کے لئے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو قاضی القضاء کے عہدے پر فائز کیا جبکہ ان کی معاونت کے لئے حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ، حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا تا کہ لوگوں کو انصاف کی فراہمی بروقت ممکن ہو۔

 

اس پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں